Gawader گوادر
گوادر
پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی

کل60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین ، افغانستان اوروسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا
زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔

زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔

قدیم مورخ مقدسی نے لکھا ہے
تیز کے گرد نخلستان
اور شہر کے اندر بہت بڑے گودام تھے یہاں ایک بہت بڑی مسجد بھی تھی ) گوادر کا مزید تذکرہ ہمیں مشہور یوروپی مورخ مارکو پولو کی کتاب میں ملے گا جو کہ اس خطے سے گزرا تھا۔۔
اس کے بعد ہمیں اس خطے کا تذکرہ مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ کی کتاب میں ملے گا (جن کا تعلق مراکش کے شہر طنجہ سے تھا )وہ اس خطے سے ہی گزر کر برصغیر کے مختلف علاقوں ملتان، دہلی گئے اپنے سفر کی روداد انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ درج کی ہے چونکہ یہ خطہ ہمیشہ ہی سے دشوار گزار علاقہ تصور کیا جاتا تھا اس لئے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں اورایران و افغانستان کے حکمرانوں کے درمیان ایک غیر رسمی معاہدے کے تحت یہ علاقہ ہمیشہ ہی بر صغیر مسلم حکومت کی باجگزار ریاست میں تصور کیا جاتا تھا کبھی کبھار جب مرکزی حکومت اپنی نالائیقیوں کے باعث زمہ داری اٹھانے کے قابل نہ رہتی تھی تو یہ علاقہ دیگر دور دراز کے علاقوں کی مانند ریاست کے معاہدے توڑ دیتے تھے جس کے نتیجے میں یہ یا تو عارضی طور پر آزاد ہو جاتے تھے یا پڑوسی ممالک ان پر قابض ہو جاتے تھے جیسا کہ سندھ بلوچستان اور سرحد کے بیشتر علاقوں کی صورتحال کے با رے میں ہمیں تاریخ میں ملتا ہے یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گوادر پر کسی زمانے میں پرتگیزوں نے بھی قبضہ کرلیا تھا جنہوں نے اس بندرگاہ کو لوٹنے کے بعد نظر آتش کردیا تھا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،
حکومت پاکستان کی جانب سے گوادر کی ترقی کے لئے جو منصوبہ بندی اس وقت کی جارہی ہے وہ بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا مگر شائد حالات یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر گوادر سے اس طرح فائدہ حاصل نہیں کا جاسکا جسطرح سے اس اہم بندرگاہ سے حاصل کیا جاسکتا تھا خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادر کی بندرگاہ سے پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو بھر پور فوائد حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ حکومت پاکستان کی جانب سے عوام کے سرمائے کی حفاظت کے لئے بھر پور اقدامات کئے جائیں ایسے عناصر جو ہمیشہ ہی عوام کو لوٹنے کیلئے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں ان کا سدباب کرلیا جائے
یہ بات واضح رہے کہ ماہی گیری کے حوالے سے اور سمندر خوراک کے حوالے سے گوادر کو انتہائی اہمیت حاصل ہے دنیا بھر کے جدید ماہی گیری کے آلات سے لیس بڑے دیو ہیکل جہاز گوادر اور ساحل مکران میں آکر ماہی گیری کرتے رہے ہیں کیونکہ اس خطے میں ملنے والی مچھلیاں اور جھینگے زائقے اور وزن کے اعتبار سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں یہ وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ساحل مکران سے سالانہ 15 لاکھ ٹن کے قریب سمندری خوراک حاصل کی جاتی ہے جس سے ایک جانب عوام کو اور دوسری جانب حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں آمدنی ہوتی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بندرگاہوں کو باقایدہ ترقی دی جائے
انگریز دور میں قلات اگر چے کہ بلوچستان کی ریاست تھی مگر اس کے علاوہ دیگر ریاستیں بھی تھیں جن کی اپنی اپنی اور علیحدہ حیثیت تھیں جیسا لسبیلہ کی ریاست تھی ریاست خاران تھی جس کے حکمران آج بھی یہ دعویِ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت قلات کے حکمرانوں سے زیادہ قدینم ہے یہ بات بلوچستان کی تاریخ سے واضح ہو تی ہے کہ جب بھی ریاست قلات کے حکمرانوں پر کوئی برا وقت پڑا انہوں نے خاران کی ریاست میں ہی پناہ لی یاچاغئی کے علاقےمیں پناہ حاصل کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکے قلات کی ریاست کے علاوہ مکران کی ریاست تھی جس کے حکمران آج بھی قلات کے مقابلے میں اپنی علیحدہ حیثیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ چاغئی کی حکمرانی سنجرانی خاندان کوحاصل تھی جسے قلات کے حکمران تسلیم نہیں کرتے تھے مگر اس علاقے کے سرداروں کی حیثیت کو انگریز تسلیم کرتے تھے جبکے ایران اور افغانستان کے حکمران چاغئی کے حکمرانوں کی حیثیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز کے گرد نخلستان
اور شہر کے اندر بہت بڑے گودام تھے یہاں ایک بہت بڑی مسجد بھی تھی ) گوادر کا مزید تذکرہ ہمیں مشہور یوروپی مورخ مارکو پولو کی کتاب میں ملے گا جو کہ اس خطے سے گزرا تھا۔۔
اس کے بعد ہمیں اس خطے کا تذکرہ مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ کی کتاب میں ملے گا (جن کا تعلق مراکش کے شہر طنجہ سے تھا )وہ اس خطے سے ہی گزر کر برصغیر کے مختلف علاقوں ملتان، دہلی گئے اپنے سفر کی روداد انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ درج کی ہے چونکہ یہ خطہ ہمیشہ ہی سے دشوار گزار علاقہ تصور کیا جاتا تھا اس لئے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں اورایران و افغانستان کے حکمرانوں کے درمیان ایک غیر رسمی معاہدے کے تحت یہ علاقہ ہمیشہ ہی بر صغیر مسلم حکومت کی باجگزار ریاست میں تصور کیا جاتا تھا کبھی کبھار جب مرکزی حکومت اپنی نالائیقیوں کے باعث زمہ داری اٹھانے کے قابل نہ رہتی تھی تو یہ علاقہ دیگر دور دراز کے علاقوں کی مانند ریاست کے معاہدے توڑ دیتے تھے جس کے نتیجے میں یہ یا تو عارضی طور پر آزاد ہو جاتے تھے یا پڑوسی ممالک ان پر قابض ہو جاتے تھے جیسا کہ سندھ بلوچستان اور سرحد کے بیشتر علاقوں کی صورتحال کے با رے میں ہمیں تاریخ میں ملتا ہے یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گوادر پر کسی زمانے میں پرتگیزوں نے بھی قبضہ کرلیا تھا جنہوں نے اس بندرگاہ کو لوٹنے کے بعد نظر آتش کردیا تھا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،
حکومت پاکستان کی جانب سے گوادر کی ترقی کے لئے جو منصوبہ بندی اس وقت کی جارہی ہے وہ بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا مگر شائد حالات یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر گوادر سے اس طرح فائدہ حاصل نہیں کا جاسکا جسطرح سے اس اہم بندرگاہ سے حاصل کیا جاسکتا تھا خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادر کی بندرگاہ سے پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو بھر پور فوائد حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ حکومت پاکستان کی جانب سے عوام کے سرمائے کی حفاظت کے لئے بھر پور اقدامات کئے جائیں ایسے عناصر جو ہمیشہ ہی عوام کو لوٹنے کیلئے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں ان کا سدباب کرلیا جائے
یہ بات واضح رہے کہ ماہی گیری کے حوالے سے اور سمندر خوراک کے حوالے سے گوادر کو انتہائی اہمیت حاصل ہے دنیا بھر کے جدید ماہی گیری کے آلات سے لیس بڑے دیو ہیکل جہاز گوادر اور ساحل مکران میں آکر ماہی گیری کرتے رہے ہیں کیونکہ اس خطے میں ملنے والی مچھلیاں اور جھینگے زائقے اور وزن کے اعتبار سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں یہ وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ساحل مکران سے سالانہ 15 لاکھ ٹن کے قریب سمندری خوراک حاصل کی جاتی ہے جس سے ایک جانب عوام کو اور دوسری جانب حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں آمدنی ہوتی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بندرگاہوں کو باقایدہ ترقی دی جائے
انگریز دور میں قلات اگر چے کہ بلوچستان کی ریاست تھی مگر اس کے علاوہ دیگر ریاستیں بھی تھیں جن کی اپنی اپنی اور علیحدہ حیثیت تھیں جیسا لسبیلہ کی ریاست تھی ریاست خاران تھی جس کے حکمران آج بھی یہ دعویِ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت قلات کے حکمرانوں سے زیادہ قدینم ہے یہ بات بلوچستان کی تاریخ سے واضح ہو تی ہے کہ جب بھی ریاست قلات کے حکمرانوں پر کوئی برا وقت پڑا انہوں نے خاران کی ریاست میں ہی پناہ لی یاچاغئی کے علاقےمیں پناہ حاصل کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکے قلات کی ریاست کے علاوہ مکران کی ریاست تھی جس کے حکمران آج بھی قلات کے مقابلے میں اپنی علیحدہ حیثیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ چاغئی کی حکمرانی سنجرانی خاندان کوحاصل تھی جسے قلات کے حکمران تسلیم نہیں کرتے تھے مگر اس علاقے کے سرداروں کی حیثیت کو انگریز تسلیم کرتے تھے جبکے ایران اور افغانستان کے حکمران چاغئی کے حکمرانوں کی حیثیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Gwadar Port Pakistan
ReplyDeleteGwadar Estate and Developers is subsidiary of 5B Marketing (Pvt)Ltd and working in Gwadar and offering real estate services since 2002. If you are interested to invest in Gwadar or sale or purchase commercial or residential lands visit our website and contact us