GAWADR HISTORY گوادر کی تاریخ

خطہ بلوچستان




تاریخ گوادر

گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔ یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے بیان کی جانے والی تاریخوں جو کہ سینہ بسینہ روایات کہلاتی ہیں ان کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ملتا اس طرح کی ایک   روایت کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے
ایرانی بادشاہت کے زیر تسلط

۔مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ ایرانی بادشاہ کاﺅس اور افراسیاب کے دور میں بھی ایران کی عملداری میں تھا۔یہ ایرانی  کی تاریخی کتابوں میں ہمیں ملتا ہے
سکندر آعظم
تصویر:Alexander.jpg

File:Alexander-Empire 323bc.jpg
سکندر آعظم کی سلطنت کی حدود کا نقشہ  اس میں تمام پاکستان شامل ہے
جب سکندر آعظم کی افواج نے برصغیر سے اپنی واپسی کا سلسلہ شروع کیا تو اس کی افواج نے پہلے سندھ میں داخل ہو نے کے بعد موجودہ کراچی کا رخ کیا جہاں سے وہ لسبیلہ کے راستے بلوچستان میں داخل ہوئے اور وہاں سے ساحل سمندر کے کنارے پر چلتے ہوئے پسنی اور دیگر ساحلی بندرگاہوں کو فتح کرتے ہوئے گوادر  پہنچے



۔325قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار Admiral   Nearchos

File:AlexanderConquestsInIndia.jpg
سکندر آعظم کی برصغیر آمد اور پھر ایران میں داخل ہونے کے راستوں کا نقشہ
نے اپنے جہاز اس کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات ،گوادر، پشوکان اور چاہ بہار کے ناموں سے لکھا ہے۔ اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے
و یہاں کا علاقے فتح کر کے اپنے ایک جنرل نکولس کو یہاں کا حکمران بنا دیا جو303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہاجہاں پر سکند آعظم نے اپنے اہلکار اس بندرگاہ کا نظام سنبھالنے کے لیئے   کے بعد اس کی افوا ج نے ایران کا رخ کرلیا سکندر آعظم کے مورخین نے اس خطے میں پانی کی بے انتہا کمی کا اظہار کیا


البتہ اس خطے میں صرف گوادر بہترین محل وقوع پر ہونے کے باعث نظرانداز بھی نہ ہوسکا جس کی وجہ سے کسی نہ کسی طور یہا ں پر ملاح بحری جہاز ، اور تاجر اس جگہ کو اپنے سفر کی ایک منزل قرار دینے لگے پانی کی کمیابی ایک ایسا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے کبھی بھی گودر اس طرح سے آباد نہ ہو سکا جس طرح اس خطے کے دوسرے شہر اور بندر گاہیں آباد ہو سکیں ہیں قدیم دور میں اس شہر کو تیز کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
                                     چندر گپتا کی حکمرانی
۔303ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپتا نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیا ۔
جس کے بعد  اس کے پوتے اشوک آعظم کی حکمرانی قائم ہوئی جس کی پیدائیش موجودہ راولپنڈی کے قریب بتائی جاتی ہے  جس کی تصدیق نہیں ہوسکی مگر اشوکا کا دارلخلافہ موجودہ ٹیکسلا ہی تھا یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اشوکا کی حکومت ہندوستانی نہیں  تھی بلکہ قدیم دور کی عظیم پاکستانی حکومت تھی ملاحظہ کیجیے اشوکا حکومت کی حدو کا نقشہ جس میں دارلخلافہ ٹیکسلا بتایا گیا ہے اگر یہ ہندوستانی حکومت ہوتی تو اس کا دارلخلافہ دہلی یا متھرا یا کوِئی دوسرا بھارتی شہر ہوتا  گوادر کی بندرگاہ بھِی ٹیکسلا سے حکومت کرنے والی اشوکا کی ریاست کا حصہ ہی تھِ جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے
 File:Maurya Dynasty in 265 BCE.jpg
مگر 100سال بعد 202ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی ۔
مسلمانوں ک حکمرانی
711عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ ہندوستان کے مغلبادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا
پرتگیزی حملہ آور
جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا ۔نہ صرف گوادر بلکہ سندھ کی ٹھٹہ سمیت بے شمار بندرگاہوں کو لوٹنے کے بعد جلا کر خاکستر کردیا

مغلوں کی حکومت کی کمزوری کے دور میں
یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچکیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔مگر اہم حکمرانوں میں بلیدی اور گچکی قبیلے ہی رہے ہیں۔ بلیدی خاندان کو اس وقت بہت پذیرائی ملی جب انھوں نے ذکری فرقے کو اپنالیا اگرچہ گچکی بھی ذکری فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔1740تک بلیدی حکومت کرتے رہے ان کے بعد گچکیوں کی ایک عرصہ تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان قلات میر نصیر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدن کو آپس میں تقسیم کر لیا۔
مسقط و اومان  کے حکمرانوں کے زیر تسلط
 
مسقط و اومان بعد میں حکمرانوں نے اس کا نام اومان رکھ دیا اس
لِئے آجکل یہ ریاست اومان کے نام سے جانا جاتا ہے  1775میں مسقط و اومان کے  حکمرانوں نے وسط ایشیاء کے ممالک سے تجارت کیلئے اس علاقے کو مستعار لے لیا یہ معاملہ بلوچستان میں قیام پاکستان کے بعد لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے جبکہ مسقط و اومان میں اور خلیجی ممالک میں تحریر کی گئی کتابوں میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے مسقط و اومان کے حکمران  گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے کے ممالک کی تجارت کیلئے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات ، گرم مصالحے ، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی۔

مسقط و اومان میں شمولیت

قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے شائع کی جانے والی کچھ کتابوں کے مصنفین نے گوادر کی تاریخ اس طرح سے بیان کی ہے حالانکہ اگر خلیج فارس کے عرب ممالک میں اس طرح کی کوئی بات ہمیں نہیں ملتی ہے خود ریاست قلات کے آخری حکمران  نواب احمد یار خان نے اپنی کتاب مختصر تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ جو 10دسمبر1972 کو ایوان قلات کوئٹہ سے شائع کی گئِ  اس کتاب میں ریاست قلات کے آخری حکمران نواب احمد یار خان نے  جو زوالفقار علی بھٹو کے دور  کے اس حصے میں جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا جارہا تھا
 
  بلوچستان کے خودمختار گورنر بھی رہے

 چکے ہیں  کیونکہ اس وقت بلوچستان میں گورنر راج نافذ تھا نواب  میر احمد یارخان ،خان آف قلات  کا دور گورنری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2جنوری1974سے5جولائی 1977تک تھا اس دور کے بارے میں کسی بھِی بلوچ رہنما یا تاریخ دان سے پوچھ لیں وہ یہ ہی کہے گا کہ اسی دور میں فوجی آپریشن ہوا اب یہ کیسا فوجی آپریشن تھا؟؟؟ جب صوبے کا گورنر خان آف قلات تھے کیا خان آف قلات فوجی حکومت کے ہاتھوں یرغمال تھے کے ان سے گورنری چھوڑی نہیں جارہی تھِی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
  جہاں بہت سے متانزعہ پہلووں پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے صفحہ نمبر 77  پر تحریر فرماتے ہیں کہ 1936میں میں نے فیصلہ کیا کہ کاروبار حکومت کو محسن و خوبی اور مکمل ربط و ضبط کے ساتھ چلانے کے لیے آئین تیار کرنا ضروری ہے چناچہ بڑی محنت سے ریاست کا آئین مرتب کیا گیا اس کے تحت دو ایوان تھے ، دارالعوام اور دارالامرا ،دارالامرا میں 52ارکان تھے ان میں عوام کے ہر طبقے زمینداروں ، تاجروں ہنرمندوں اور علماء کے علاوہ غیر مسلموں کو بھِی نمائندگی حاصل تھی دارالعوام کی ہیت ترکیبی اس طرح تھی
اس کے بعد   نواب احمد یار خان مرحوم  نے  دارالعوام کے اراکین کی فہرست شائع کی ہے اس فہرست کو پڑھتے جایئے کہیں پر بھی گوادر کے حوالے سے کسی بھی نمائندے کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے یہ صورت حال دارالامرا کے اراکین کی ہے جو  آگےچل کر شائع کی گئی ہے اس میں بھی کہیں پر  بھی گوادر کے کسی نمائندے کا کوِئی تذکرہ نہِں کیا گیا ہے حالانکہ انہوں نے  مکران اور خاران کے نام پر کچھ افراد کو دارالامرا اور کچھ کو دارالعوام کا رکن بنایا جن کے بارے میں ایک بلوچ تاریخ دان نے بتایا تھا کہ ایوان کا رکن بننے کے بعد وہ افراد مکران اور پنجگور میں کبھی بھِ داخل ہی نہیں ہوسکے  اس پر بعد میں بات کی جائے گی اگرگوادر کی قانونی پوزیشن کا جائیزہ لیا جائے تو یہ بات ریاست قلات کے آخری حکمران نواب احمد یار خان کی کتاب مختصر تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ  میں ہی عیاں ہوجاتی ہے کہ گوادر کی ریاست قلات کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نزدیک کیا تھی؟؟؟؟؟؟؟اس کے علاوی جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ   
  مسقط و اومان میں اور خلیجی ممالک میں تحریر کی گئی کتابوں میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے متحدہ عرب امارات کی امارات شارجہ کے حکمران ہز ہائی نس سلطان بن محمد جو اعلی درجے کے محقق اور اسکالر ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسے کسی معاملے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے٫  مگر اس کے باوجود چونکہ اس وقت پاکستان میں بلوچستان کے حوالے سے شائع کی جانے والی کتابوں میں  یہ واقعہ شائع کیا جاتا ہے اس لیئے اس واقعہ کو یہاں شائع کیا جارہا ہے تاکہ بات قارئیں کے سامنے واضح رہے
م1783میں مسقط کے بادشاہ کی اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہو گیاجس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آ جانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لا محدود وقت کیلئے سلطان کے نام کر دیا یہ معاملہ بلوچستان میں قیام پاکستان کے بعد لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے ۔۔جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آ کر رہائش اختیار کر لی۔1797میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کر لی۔1804میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں بلیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آ کر اس علاقے کو بلیدیوں سے واگزار کروایا۔1838 ء کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقہ پر ہوئی تو بعد میں1861میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ سمتھ کی نگرانی آکر اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور1863 میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا چنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔1863میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس )قائم ہوا جبکہ پسنی میں بھی تار گھر بنایا گیا۔1894کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا
جبکہ 1903کو پسنی اور1904کو اورماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے
۔1947میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ یہ علاقہ خلیج کی عرب ریاست مسقط و اومان کا حصہ تھا۔

گوادر اور اس سے ملحقہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔ زیر نظر تصویر میں مکران کوسٹل ہائی وے پہاڑی علاقے میں
گذرتی دکھائی دے رہی ہے


2 comments:

  1. Gwadar Port Pakistan

    Gwadar Estate and Developers is subsidiary of 5B Marketing (Pvt)Ltd and working in Gwadar and offering real estate services since 2002. If you are interested to invest in Gwadar or sale or purchase commercial or residential lands visit our website and contact us

    ReplyDelete